چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہو گیا ہے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت فل کورٹ کر رہا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ رولز نہیں بنا سکتی نا ہی رولزبنانےکیلیے قانون سازی کر سکتی ہے، موجودہ قانون کے دائرہ کار میں رہ کر رولز میں تبدیلی کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا آئین کہتا ہے سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے رولز بنانےکے لیے بااختیار ہے، سپریم کورٹ آئین سے بالارولز بناتا ہے تو کوئی تویاد دلائےگاکہ آئین کے دائرے میں رہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آئین توپہلےہی سپریم کورٹ کوپابندکرتا ہےکہ آئین و قانون کے مطابق رولز بنائے جبکہ چیف جسٹس پاکستان نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا وقت کم ہے جلدی سے میرے سوال کا جواب دے دیں کہ سبجیکٹ ٹو لا کو نکال دیں تو رولز بنانے کے اختیار پر کیا فرق پڑےگا؟
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے اپنے دلائل میں کہا آئین سے آئین و قانون کے مطابق رولز بنانےکے الفاظ ہٹا دیے جائیں توبھی فرق نہیں پڑےگا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا بس ٹھیک ہے جواب آ گیا، اگلے نکتے پر جائیں۔
عابد زبیری کا کہنا تھا اگر آرٹیکل 191میں کہا جاتا پارلیمنٹ سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کر سکتی ہے تو ٹھیک تھا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ایک اور سوال ہے، کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے اختیار سے تجاوزکرکے قانون بنا سکتی ہے؟ ہمیں دیکھنا ہو گا آئین کسی بھی ادارے کو آئینی حدود کا پابند کہاں بناتا ہے، آئین سپریم کورٹ کو آئین و قانون کے مطابق رولز بنانےکے لیے بااختیار بناتا ہے بات ختم۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیا جو اس نے استعمال کیا، کیا اس کےبعد قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز کو بدلا جا سکتا ہے؟
عابد زبیری نے کہا جب سپریم کورٹ نے رولز بنا لیے تو انہیں قانون کے ذریعے نہیں بدلا جا سکتا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آج سماعت مکمل کرنا ہے، میں وکلاء کو سننا چاہتا ہوں، جج صاحبان اپنے فیصلے میں جو لکھنا چاہتے ہیں لکھیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا آئین و قانون کے مطابق رولزبنانےکے لیے پابندکرنے کا مطلب ہے موجودہ قانون کے مطابق رولز بنیں گے جبکہ چیف جسٹس قاضی فائزی عیسیٰ نے کہا آج ہم یہ کیس سن رہے ہیں اور ہمارےادارے میں کیسزکا بوجھ بڑھ رہا ہے، آج کیس کو ختم کرنا ہے، اپنے دلائل 11 بجے تک ختم کریں۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ نے تحریری دلائل جمع کرائے تھے؟ جس پر عابد زبیری نے بتایا کہ ابھی اپنا تحریری جواب جمع کرایا ہے، قاضی فائز عیسیٰ نے کہا عدالت نے پہلے سے تحریری دلائل جمع کرانےکا حکم دیا تھا، اتنے سارےکاغذ ابھی پکڑا دیے، کون سے ملک میں ایسے ہوتا ہے کہ کیس کی سماعت میں تحریری جواب جمع کراؤ؟ ہر بات میں امریکی اور دوسری عدالتوں کا حوالہ دیتے ہیں یہاں بھی بتائیں۔
وکیل عابد زبیری نے کہا نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کم ازکم امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا تو حوالہ دیں، ہمارا لیول اتنا نا گرائیں کہ نیوجرسی کی عدالت کے فیصلےکوبطورمثال پیش کر رہے ہیں، یہ تو فیصلہ بھی نہیں ہے۔
وقفے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار عامر صادق کے وکیل عدنان خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ پارلیمنٹ کوبذریعہ ایکٹ سپریم کورٹ رولزبنانےکا اختیار نہیں، آئین سازوں نے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے ضابطوں میں رد و بدل کا اختیار دانستہ نہیں دیا، چیف جسٹس کے آفس کو پارلیمنٹ نے بےکار کر دیا، سپریم کورٹ دوبنیادوں پرکھڑی ہے، ایک چیف جسٹس اور دوسری باقی ججز۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا چیف جسٹس کو جہاں اختیارات دیےگئے وہ آئین میں درج ہے، چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے سواکہاں تنہا اختیارات دیےگئے، جس پر وکیل عدنان خان نے کہا آئین کہتا ہے چیف جسٹس خود بغیرکسی مشاورت کے بینچزبنا سکتا ہے، اگر 2 ججزکہتے ہیں اگلےہفتے سے بینچ نہیں بنانے صرف چیمبر ورک کرنا ہے تو چیف جسٹس کے اختیارات بےکار ہوں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ ابھی تک مستقبل کا بتا رہے ہیں، ابھی اس قانون سے آپ کا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے؟ آپ ہمارے سامنے اپنےکون سے بنیادی حق کا دفاع کر رہے ہیں؟
وکیل عدنان خان نے کہا پارلیمنٹ کو قانون سازی کاکوئی اختیار نہیں، اس سے تمام بنیادی حق متاثر ہوتے ہیں، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے انصاف تک رسائی کے آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی ہوئی، ایکٹ میں فوری مقرر مقدمات کا طریقہ کار دےکر سپریم کورٹ کی تضحیک کی گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہم پہلے بھی کیس مقرر کرنےکے لیے اپنا دماغ استعمال کیا کرتے تھے، میں نے تو پہلے ہی کیس مینجمنٹ کمیٹی کو کیسز کے تقررکا اختیار دیا ہے، کیا میں نےکیس مینجمنٹ کمیٹی بناکر آئینی خلاف ورزی کی؟
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا پشاور ہائیکورٹ کے حراستی مراکز سے متعلق فیصلے کے خلاف اپیل 4 سال سے زیرا لتوا ہے، اہم کیسز کے مقرر نا ہونے پر قانون سازی کیوں نہیں ہو سکتی؟ جبکہ چیف جسٹس پاکستان نے کہا اگر میں حراستی مراکز سے متعلق کیس مقرر نہیں کرتا تو آپ کے پاس کیا حل ہوگا؟
وکیل عدنان خان نے کہا مشاورت اچھی چیز ہے، چیف جسٹس اپنے ساتھیوں میں کسی سے بھی مشاورت کر سکتے ہیں، اس قانون میں کہیں مشاورت کا لفظ درج نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کوئی ایسا قانون یا شرعی قانون ہے کہ اپیل کا کوئی حق نہیں ہے؟
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا قانون یا شریعت کی رو میں کہاں درج ہےکہ قاضی کافیصلہ آخری ہو گا؟ کوئی حوالہ دے دیجیے، جس پر وکیل نے اپنے دلائل کا اختتام کرتے ہوئے کہا میں ریفرنس جمع کرا دوں گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پربلایا تو امتیاز صدیقی نے دلائل کے لیے وقت نا دینے پر اعتراض اٹھا دیا جس پر چیف جسٹس اور وکیل امتیاز صدیقی کے درمیان تلخی بھی ہوئی۔
درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا آپ نےکہا تھا کہ پہلے ہمیں سنیں گے پھر اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہمیں نا سننا ناانصافی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہاں لکھا ہے حکم نامے میں کہ آپ کو ابھی سننا ہے؟ جس پر امتیاز صدیقی نے جواب دیا آپ ہمارے ساتھ اپنا سلوک دیکھیں، چیف جسٹس نے جواب دیا کوئی بات کرنے کی تمیز بھی ہوتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا پچھلی سماعت کا تمام ججزکے دستخط کے ساتھ حکمنامہ جاری ہوا تھا، حکم نامے میں درج ہے امتیازصدیقی کے دلائل مکمل ہو چکے اور وہ مزید دلائل دینا نہیں چاہتے، جس پر امتیاز صدیقی نے کہا میرے ساتھی خواجہ طارق رحیم آپ کے رویے کی وجہ سے آج عدالت نہیں آئے، خواجہ طارق رحیم نے آپ کو پیغام پہنچانے کا کہا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیے جس پر وکیل امتیاز صدیقی واپس نشست پر براجمان ہو گئے۔
خیال رہے کہ وکلا کے دلائل مکمل ہونےکی صورت میں سماعت آج مکمل ہونے کا امکان ہے جبکہ چیف جسٹس نے بھی آج کیس مکمل کرنے کا عندیہ دے رکھا ہے۔