0

سپریم کورٹ بل؛ فل کورٹ کی استدعا پر تحفظات ہیں، سپریم کورٹ

سلام آباد: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل کے خلاف درخواستوں کی سماعت عدالت عظمیٰ میں جاری ہے۔ دوران سماعت جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست میں کی گئی استدعا پر تحفظات ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 8 رکنی بینچ ’’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل‘‘ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کررہا ہے۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان روسٹرم پر آگئے۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کی جانب سے فواد چوہدری بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے درخواست دائر کی ہے۔  دوران سماعت مسلم لیگ ن نے بھی فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالت کو درخواست دے دی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اپ نے دستاویزات جمع کروا دی ہیں؟، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ توقع ہے کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائے گا۔ اسپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا ہے۔عدالت قرار دے چکی ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔عدلیہ آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون میں بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طے کیا گیا ہے۔ عدالتی اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیا گیا ہے۔ قانون میں جو معاملات طے کیے گئے وہ انتظامی نوعیت کے ہیں۔ سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دیے تھے۔سپریم کورٹ رولز میں ترمیم بھی فل کورٹ ہی کرسکتی ہے۔  عدلیہ کی آزادی اور رولز سے متعلق  فیصلہ و مقدمہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے۔ قانون براہ راست ان ججز پر بھی لاگو ہو گا جو مقدمہ نہیں سن رہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سوال قانون سازی کے اختیارات کا ہے، رولز میں ترمیم کا نہیں۔ قانون سازی کے اختیار کے مقدمات مختلف بینچز معمول میں سنتے رہے ہیں۔ جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ کیا ماضی میں ایسی قانون سازی ہوئی ہے؟، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 1992ء تک رولز بنانے کے لیے صدر کی اجازت درکار تھی۔ جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 91 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہو سکتی ہے؟۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر کی اجازت کا اختیار واپس لے لیا گیا تھا۔ رولز آئین و قانون کے مطابق بنانے کی شق برقرار رکھی گئی۔ ماضی میں کبھی ایسا مقدمہ نہیں آیا، اس لیے فل کورٹ تشکیل دی جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں