کراچی: انضمام الحق بطور چیف سلیکٹر اپنے سابقہ دور میں بھی ’’مفادات کے ٹکراؤ‘‘ کی زد میں آ چکے، اس وقت انھوں نے ٹی 10 لیگ کی ٹیم خریدی تھی۔
انضمام الحق کو2007میں ریٹائر ہونے پر پی سی بی نے ایک کروڑ (موجودہ ساڑھے چار) روپے نقد دیے تھے، پھر وہ باغی انڈین کرکٹ لیگ سے منسلک ہوئے جو میچ فکسنگ تنازعات کی وجہ سے چل نہیں سکی۔
2017 میں انضمام کو14 لاکھ روپے ماہانہ پر قومی کرکٹ چیف سلیکٹر کی ملازمت مل گئی، چیمپئنز ٹرافی کی فتح پر گھر بیٹھے ایک کروڑ روپے کا انعام بھی ملا، اس وقت انھوں نے ٹی ٹین لیگ میں اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ایک ٹیم خرید لی،اس کا آفیشل پریس ریلیز بھی سامنے آیا۔
جب ’’ایکسپریس‘‘ میں یہ خبر شائع ہوئی تھی تو بورڈ پہلے تردید کی کوشش کرتے رہا پھر کہا بھائی کی ٹیم ہے۔ اس وقت کے بورڈ چیف نجم سیٹھی تک نے کہا کہ انضمام کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، مگر پھر انضمام نے بورڈ سے خود ٹیم خریدنے کی اجازت مانگی جو انھیں مل بھی گئی۔
اس وقت بھی یہ سوال اٹھا تھا کہ جب ان کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا پھر اجازت کیوں مانگی؟ اسی طرح جب انضمام ٹی ٹین سے منسلک ہی نہیں تو بورڈ نے اجازت کس بات کی دی، تب یہ کہا گیا تھا کہ چیف سلیکٹر جب تک ٹی ٹین لیگ سے منسلک رہیں گے انھیں تنخواہ نہیں ملے گی۔
اب چیف سلیکٹر کی حالیہ ذمہ داری سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی انضمام الحق کو پلیئرز ایجنٹ طلحہ رحمانی اور وکٹ کیپر محمد رضوان کے ساتھ برطانوی کمپنی کی وجہ سے ’’مفادات کے ٹکراؤ‘‘ کے نئے الزام کا سامنا ہے،اس وجہ سے انھیں مستعفی بھی ہونا پڑا۔