پاکستانی معیشت میں زیتون کی اہمیت اب مسلمہ بنتی جارہی ہے ۔ فوٹو : فائل
بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کی معیشت اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے۔
ماہرین زراعت کے مطابق زیتون کی پیداوار میں اضافہ ملک کی معیشت اور ماحول دونوں کے لیے سودمند ثابت ہو سکتا ہے ، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بہت سے علاقے جنگلی زیتون کی کاشت کے لیے انتہائی موزوں سمجھے جاتے ہیں، ان علاقوں میں زیتون کی مختلف اقسام بڑے پیمانے پر کاشت کی جا رہی ہیں جنہیں مقامی زبانوں یعنی پنجابی میں کہو، پشتو میں خونہ اور بلوچی میں حث کہتے ہیں۔
ان علاقوں میں زیتون کو مقامی درخت سمجھا جاتا ہے، جو خود رو ہے اور موافق آب وہوا میں اس کے درخت تیزی سے پھل دینے لگتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں کسان اور زمیندار زیتون کی افادیت سے پوری طرح واقف نہیں، اس سے تیل حاصل کرنے اور دیگر غذائی اشیاء کی تیاری کے لیے انہیں باقاعدہ تربیت کی ضرورت ہے۔
پاکستان فاریسٹ انسٹی ٹیوٹ پشاور کی فراہم کردہ دستاویز جنوری 1963 میں تحریر کی گئی تھی، اس کے مطابق 1866میں ایک انگریز افسر نے راولپنڈی میں زیتون کی مختلف اقسام کے لگ بھگ ایک سو پودے لگائے تھے، اس کے بعد 1964ء میں ایوب خان کے دور میں اردن سے منگوا کر راولپنڈی اور گردونواح میں مزید پودے لگائے گئے جن پر بھرپور طریقے سے پھل آئے لیکن بعد ازآں زیتون کی کاشت پر مناسب توجہ نہ دینے سے اس کی باقاعدہ پیداوار شروع نہیں ہوسکی۔
اس کے بعد2001ء میں خیبر پختونخوا میں ترناب اور مردان میں فارم ہاؤس بنا کر زیتون کی پیداوار بڑھانے کے لیے یونٹس بنائے گئے، جب کہ 2012 میں چکوال کو وادی ِزیتون قرار دے کر اس کی کاشت کا ایک بڑا منصوبہ شروع کیا گیا، نوشہرہ میں پیرسباق کے مقام پر بھی نوے کی دہائی میں اس پر کام شروع کیاگیا اور اب وہاں باقاعدہ زیتون کے باغات دیکھے جاسکتے ہیں۔
اسی طرح تحریک انصاف کے دور میں بلین ٹری سو نامی منصوبے کے تحت گورنرشاہ فرمان کی نگرانی میں تیراہ ، بنوں اور صوبے کے دیگر علاقوں میں اس کی کاشت پر خصوصی توجہ دی گئی، پاکستان میں حالیہ برسوں میں زیتون بہت تیزی سے ترقی کرنے والی غذائی جنس کے طور پر سامنے آیا ہے، مستقبل میں زیتوں ملک میں جاری معاشی بحران سے نمٹنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اسی سلسلے میں رواؒں سال کے ماہ مارچ میں زیتون کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کے حوالے سے ترناب فارم پشاور میں بہت بڑی نمائش کا انعقاد کیاگیا جس کا اہتمام ایگری کلچرریسرچ انسٹی ٹیوٹ پشاور نے کیا تھا جس میں موجودہ گورنرحاجی غلامی علی نے بطورمہمان شرکت کی، زیتون کی اس نمائش میں زیتون سے بنائی گئی مختلف اشیاء رکھی گئی تھیں جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے نا صرف شرکت کی بلکہ اس میں گہری دل چسپی بھی لی۔
نمائش کا مقصد ملک اور خصوصاً خیبرپختون خوا میں زیتون کی کاشت کو پروان چڑھانے کے لیے تجاویز اور عوام میں اس حوالے سے آگاہی پھیلانا تھا، اس نمائش میں ملک بھر سے کثیر تعداد میں ماہرین نے بھی شرکت کی۔
اس حوالے سے بارانی ایگری کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے محقق اور سائنس داں اخترمنیر نے بتایا کہ پاکستان میں تقریباً دس ملین ایکڑ زرعی زمین زیتون کی کاشت کے لیے موزوں ترین ہے۔ یہ اسپین میں زیتون کے زیرِکاشت رقبے سے دو گنا ہے۔ واضح رہے کہ اسپین دنیا بھر میں زیتون کی پیداوار میں اول نمبر پر ہے۔
2012ء میں چکوال میں شروع کیے جانے والے بڑے منصوبے اور بلین ٹری سونامی کے ثمرات اب آہستہ آہستہ سامنے آنے لگے ہیں۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں 1500 ٹن زیتون کاشت کیا جا رہا ہے، جس سے 830 ٹن تیل حاصل کیا جاتا ہے، پیداوار میں تیزی سے اضافے کو دیکھ کر بین الاقوامی زیتون کونسل نے فروری 2022ء میں پاکستان کو اپنا ممبر منتخب کر کے مستقبل میں زیتون کی پیداوار بڑھانے کے لیے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔ واضح رہے کہ دنیا بھر سے اس کونسل کے صرف انیس ارکان منتخب کیے گئے ہیں اور جنوبی ایشیا سے پاکستان اس کا واحد ممبر ملک ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں اُگنے والے جنگلی زیتون سے نکلنے والا تیل انتہائی اعلٰی معیار کا حامل ہے، اس تیل کی چین، مراکش، تیونس، اسپین اور دیگر ممالک میں بہت زیادہ مانگ بھی ہے۔ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے کسان طارق خان نے اس ضمن میں بتایا کہ انہوں نے آٹھ برس قبل مختصر زرعی زمین پر زیتون کی کاشت کا آغاز کیا تھا، اپنی زمین پر اگنے والے زیتون سے وہ سادہ مشینوں کے ذریعے 8 فی صد تیل حاصل کرتے ہیں۔
اسی علاقے کے ایک اور زمیندار رامداد خان کے مطابق وہ ایک سو ایکڑ رقبے پر زیتون کاشت کرتے ہیں اور مختلف سائز کے زیتون کی پیکنگ کے لیے چین کی مشینیں استعمال کرتے ہیں، یہ مشینیں نسبتاً سستی اور استعمال میں آسان ہیں۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈائریکٹرآوٹ ریچ اینڈاولو پراجیکٹ ضیاء اللہ نے بتایا کہ زرعی تحقیقی مرکز ترناب فارم پشاور میں زیتون کے پھلوں سے بیج نکالنے اور سلائس بنانے کے لیے جدید مشینیں نصب کی گئی ہیں جن سے علاقے کے تمام زمیندار استفادہ کر سکتے ہیں۔ یہ سینٹر چار دہائیوں سے کسانوں کو زیتون سے اچار، مربہ اور دیگر غذائی اشیاء بنانے کی تربیت بھی فراہم کررہا ہے۔
بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے باعث پاکستان کے محض 5 فی صد رقبے پر جنگلات باقی رہ گئے ہیں۔ یہ تناسب ایکو سسٹم اور ماحول کی حفاظت کے لیے مختص کیے گئے بین الاقوامی معیار سے بہت کم ہے، جس کے مطابق کسی ملک کے 23 فی صد رقبے پر جنگلات کا ہونا اشد ضروری ہے، موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے۔
اگرچہ ماضی میں شجرکاری اور بلین ٹری سونامی جیسے منصوبے شروع کیے گئے مگر منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث اس امر کا خیال نہیں رکھا گیا کہ کس علاقے میں کس طرح کے درخت لگانا موزوں رہے گا، اگر آب و ہوا اور ماحول کو مدنظر رکھ کر زیتون اور اسی طرح کے منافع بخش پھلوں کی کاشت کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے تو ناصرف ملکی معیشت بلکہ ماحول پر اس کے مثبت اثرات کچھ ہی عرصے میں سامنے آسکتے ہیں۔
اس وقت پاکستان میں سیکڑوں ایسے کسان ہیں جو اپنی گھریلو، معاشی اور ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زیتون کاشت کر رہے ہیں، زیادہ تر کسان جنگلی زیتون میں قلم کاری سے زیتون کی پیداوار بڑھا رہے ہیں۔
ایبٹ آباد میں قائم ہزارہ زرعی تحقیقی اسٹیشن کے ایک ماہر اختر نواز نے بتایا کہ پاکستان میں زیتون کی کاشت تقریباً تین دہائی قبل اس وقت شروع ہوئی جب پاکستان آئل ڈویلپمنٹ بورڈ نے 1996تا 97 میں اس پر کام شروع کیا، ان کے مطابق ابتدا میں اس منصوبے کے تحت جنگلی زیتون کی پیوند کاری کی گئی کیوںکہ یہ قسم صرف پہاڑی اور کھردری سطح زمین پر کام یاب ہے۔ ان کے مطابق ہزارہ ڈویژن میں لاکھوں کی تعداد میں جنگلی زیتون کے درخت پائے جاتے ہیں، ترکی اور اٹلی سے آنے والی زیتون کی قسمیں پاکستان کی آب و ہوا کے لیے نا صرف موزوں ہیں بلکہ ان سے تیل کی پیداوار میں بھی بہتری آئی ہے۔
جنگلی زیتون کیا ہے؟جنگلی زیتون کا درخت خونہ کہلاتا ہے جس کو خیبر پختون خوا کے اکثریتی علاقوں میں خونہ، جنوبی اضلاع میں خن، پنجاب اور کشمیر میں کہو اور بلوچستان میں ہث یا حث کہا جاتا ہے، زرعی تحقیقاتی مرکز ترناب فارم پشاور کے تحقیقاتی افسر اور خیبر پختون خوا میں زیتون کے ماہر عبدالمتین کے مطابق زیتون کے مختلف اقسام کے درخت ہیں جن میں سے ایک قسم جنگلی زیتون کی ہے۔
جنگلی زیتون پاکستان کا مقامی اور خودرو درخت ہے، یہ ملک کے چاروں صوبوں، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں یہ بکثرت موجود ہے جس کا ہر علاقے میں الگ مقامی نام ہے۔ جنگلی زیتون کی جڑ اور لکڑی بڑی مضبوط ہوتی ہے اور یہ پاکستان کے ماحولیاتی نظام سے مکمل موافقت رکھتا ہے۔
زیتون کے درخت کی عمر لگ بھگ ایک ہزار سال سے زائد بھی ہو سکتی ہے۔ اس وقت پاکستان کے خیبر پختونخوا میں ایبٹ آباد، شنکیاری، سنگھبٹی اور ترناب فارم پشاور میں بھی کسانوں کے لیے یہ سہولت دست یاب ہے جب کہ چکوال سمیت پنجاب کے متعدد علاقوں میں بھی زیتون کی پیداوار ہو رہی ہے۔
چکوال میں حکومت کا زیتون کا ایک ماڈل فارم بھی ہے، یہاں پر قائم تحقیقاتی مرکز میں زیتون کی مختلف اقسام پر 1991 سے تحقیق کی جا رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پام آئل سے زیتون کے تیل کی کوالٹی کئی گنا بہتر ہوتی ہے کیوںکہ اس کی پراسسنگ کولڈ میتھڈ کے تحت کی جاتی ہے جس سے اس میں موجود انسانی جسم کے لیے مفید اجزا ضائع نہیں ہوتے۔
ان کے مطابق پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس نے ماضی میں پام آئل کی کاشت سے متعلق ملائشیا کی مدد بھی کی مگر اب خود بڑی دولت اس تیل کی درآمد پر خرچ کر رہا ہے، زیتون کی کاشت کرنے والوں کوایسے آلات بھی مہیا کیے جانے چاہییں جن سے وہ زیتون کے پھل کی محفوظ طریقے سے چنائی کر سکیں کیوںکہ زیتون کا پھل سائزمیں چھوٹا ہوتا ہے اور اسے اس طرح چننا کہ درخت اور پھل کو نقصان نہ پہنچے بہت مشکل کام ہوتا ہے۔
ماہرزراعت گل نواز کے مطابق پاکستان میں جنگلی زیتون کو کوئی بڑا ماحولیاتی خطرات لاحق نہیں ہے، یہ سرد وگرم موسموں کا درخت ہے، موسمی شدت اور سختی بھی برداشت کرلیتا ہے، بلوچستان کے 0.2 رقبے پر جنگلی زیتون کے تاریخی اور پرانے جنگلات اور درخت ہیں جو مقامی آبادیوں کی ضرورتوں جن میں مال مویشیوں کا چارہ بھی شامل ہے۔
پورا کرتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ اس وقت جنگلی زیتون کو مقامی آبادی کی جانب سے اس کی لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کرنے کی وجہ سے بڑے خطرات لاحق ہیں کیوںکہ مقامی طور پر لوگوں کے پاس متبادل ایندھن کی سہولتیں میسر نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ جنگلی زیتون کی لکڑی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان کے علاوہ ملک کے دیگر پس ماندہ اور پہاڑی علاقوں میں بھی جنگلی زیتون کی لکڑی کو ایندھن کے لیے استعمال کیے جانے کی روایت موجود ہے جس پر قابو پانے کے لیے مقامی آبادی میں شعور پیدا کرنا ہوگا۔
ڈائریکٹرآوٹ ریچ اینڈ الوو پراجیکٹ ضیاء اللہ کے مطابق جس طرح آم کے پودے پر قلم کاری کر کے بہتر نتائج حاصل کیے جاتے ہیں، اسی طرح جنگلی زیتون پر اچھے زیتون کی سادہ طریقے کے ساتھ قلم کاری کرکے حیرت انگیز نتائج حاصل ہوئے ہیں، اس کا کوئی لمبا چوڑا طریقہ نہیں ہے۔
جنگلی زیتون کے کسی درخت پر کچھ اچھی شاخوں کا انتخاب کر کے ان کو آری سے کاٹ کر چھال پر دو کٹ لگائے جائیں جو بالکل آمنے سامنے ہوں، کاٹے گئے تنے کی موٹائی کے لحاظ سے قلم کا انتخاب کیا جائے، قلم کو تراش کر تنے کی چھال میں پوست کیا جائے، پلاسٹک سے اچھی طرح باندھا جائے، دونوں قلموں کو بھی اچھی طرح پلاسٹک سے ڈھانپ کر باندھ دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ جنگلی زیتون پر اچھے زیتون کی قلم کاری کرکے اچھے نتائج حاصل ہو سکتے ہیں مگر اس سلسلے میں چند احتیاطی تدابیر اختیار کرنا لازم ہے ورنہ خدشہ ہے کہ کچھ ماحولیاتی مسائل پیدا نہ ہو جائیں،جنگلی زیتون کو تو کسی دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہوتی مگر جب جنگلی زیتون کو اچھے زیتون میں تبدیل کیا جائے تو جس طرح کسی پھلوں کے باغ کو دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی ہے۔
اسی طرح کی ضرورت ان کو بھی ہوتی ہے، اگر جنگلی زیتون پر قلم کاری کامیاب ہو جائے تو تین سے چار ہفتے میں قلم کی گئی ٹہنیوں پر کونپلیں پھوٹنا شروع ہو جاتی ہیں جب کہ زیتون کا درخت چار سے پانچ سال میں پھل دینا شروع کر دیتا ہے،انہوں نے بتایا کہ زیتون کے ایک اچھے درخت سے 40 سے 120 کلو زیتون سالانہ حاصل کیا جاتا ہے۔
ماہرزراعت شفیع محمد نے بتایاکہ ہمارے پاس پورے ملک میں اس وقت استعمال میں نہ لائی جانے والی چار ملین ہیکٹر زمین ایسی ہے جہاں پر زیتون کے باغات لگائے جا سکتے ہیں، اسپین دنیا میں سب سے زیادہ زیتون پیدا کرتا ہے جب کہ اس کے صرف 2.6 ملین ہیکٹر زمین پر زیتون کے باغات ہیں جب کہ پاکستان میں ہمارے پاس سپین سے زیادہ زمین موجود ہے جہاں اچھی کوالٹی کا زیتون کاشت کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے ہماری زراعت اور مقامی پھلوں کے باغات بالکل متاثر نہیں ہوں گے کیونکہ اس وقت اس زمین کو کسی بھی کام میں نہیں لایا جا رہا ہے، اس وقت پاکستان اپنی ضرورت کے لیے سالانہ تین بلین ڈالر سے زائد زیتون کا خوردنی تیل درآمد کرتا ہے۔
ان کے مطابق بڑی پیمانے پر زیتون کی کاشت کرنے سے پہلے مرحلے میں اگر پاکستان اپنی ضرورت میں خود کفیل ہو جائے تو نہ صرف قیمتی زرمبادلہ بچ جائے گا بلکہ دوسری مرحلے میں ایکسپورٹ شروع کر کے قیمتی زرمبادلہ کما بھی سکتا ہے، اب بھی جو منصوبے شروع ہوئے ہیں، ان سے زبردست قسم کی معاشی سرگرمی دیکھی گئی ہے، زیتون ایک ماحول دوست درخت ہے جس میں کاربن کو استعمال کرنے، ہوا اور ماحول کو صاف کرنے کی بہترین صلاحیت موجود ہے۔
اس پر کیڑوں اور بیماریوں کے حملے کم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے زرعی ادویات کے استعمال کی ضرورت کم ہی پڑتی ہے جب کہ دیگر پھلوں کے مقابلے میں اس کو پانی کی بھی کم ہی ضرورت ہوتی ہے، جس وجہ سے یہ پوٹھوہار جیسے کم پانی والے علاقوں کے لیے بھی انتہائی اہم فصل ہو سکتی ہے۔
تاریخی پس منظر: شاخ زیتون امن کی علامت کے سوا بھی اہمیت رکھتی ہے۔ زیادہ تر تہذیبوں نے زیتون کے درخت کی خوش حالی کو سلامتی سے جوڑا کیوںکہ جنگ کے ادوار میں اس کی نشونما نہیں ہوتی، ’’زیتون کی شاخ‘‘ کی کہانی دو جہتی کہانی ہے، پہلی جہت افسانوی ہے، جس میں بنیادی کہانی کبھی کبھی خیالی باتوں میں الجھی جاتی ہے۔
یہ کہانی قدیم و جدید دنیا میں امن کی علامت کے طور پر زیتون کے کردار سے جڑی ہوئی ہے جب کہ اس کہانی کی دوسری جہت ایک حقیقت پسندانہ، ٹھوس جہت ہے جسے نظرانداز کیا جاسکتا یا اس سے چشم پوشی نہیں برتی جا سکتی، کیوںکہ یہ بیک وقت ایک غذائی، طبی اور اقتصادی جہت ہے۔
اس کے باوجود اس درخت کی شاخ نے مختلف زمانوں میں بہت توجہ حاصل کی، کیوںکہ اس نے مادی اقدار پر انسانی تخیل کی فتح کو اس کہانی کے ذریعے مجسم کیا، امن کی علامت کے طور پر اس کے افسانے نے اسے درخت سے بھی زیادہ مشہور کر دیا،
مذہبی روایت: زیتون کی شاخ امن کی علامت کے طور پر ایک اور آئیکن کبوتر کے ساتھ منسلک تھی، پھر کسی نہ کسی طرح شاخ زیتون کا کبوتر کے ساتھ تعلق ختم ہوا حالاںکہ اس کے بارے میں اصل روایت نوحؑ اور ان کی کشتی کی کہانی پر مبنی ایک مذہبی روایت ہے۔
متواتر روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسی پھل دار درخت کی فضیلت جس سے شاخ نکلی تھی، اس کے صحت کے فوائد اور غذائی فوائد کا ذکر بعد میں آسمانی کتابوں میں کیا گیا ہے، اس نے اس روایت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس طرح مذہبی روایت میں شاخ زیتون کی وقعت اور قدرو منزلت اور گہری ہوتی چلی گئی۔
شاخ کی کہانی: زیتون کی شاخ کی کہانی یونان سے شروع ہوتی ہے جہاں انہوں نے اسے اولمپک گیمز کے لیے ایک علامت کے طور پر لیا، اس لیے انہوں نے اسے مشعل کے طور پر استعمال کیا کیونکہ شاخ مضبوطی سے جل رہی تھی اور ان کے لیے یہ طاقت کی علامت تھی امن کی نہیں لیکن قدیم تہذیبوں نے عموماً امن سے جڑی شاخ کے افسانے کو تسلیم کیا، کیوںکہ وہ تہذیبیں جنہوں نے زیتون کا درخت لگانے کا طریقہ سیکھا اور اس کے فائدے اور فضیلت عملی تجربے سے سیکھی کہ اس پودے کو کھلنے کے لیے خاص حالات کی ضرورت ہے۔
یہ پھل دیتا ہے کیوںکہ یہ طویل عمر پانے والا پودا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس میں سے کچھ ایک ہزار سال سے زیادہ زندہ رہتے ہیں، اس کے علاوہ درخت کو پھل پیدا کرنے کے لیے ایک طویل وقت درکار ہوتا ہے اور اسے ایک مخصوص ماحول اور مناسب ماحول کی بھی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا زیادہ تر تہذیبوں نے درخت کی خوش حالی کو امن سے جوڑا، کیوںکہ جنگ کے ادوار میں درخت کا مکمل طور پر بڑھنا ناممکن ہے جو اس کی نشوونما میں خلل ڈالتی ہیں۔
پتے اور ٹہنی کے فوائد: روایت کے مطابق لوگوں کو زیتون کے درخت کی شاخ کا علم پہلے ہوا بعد میں انہیں پورے درخت اور اس کے فوائد کا پتا چلا یعنی شاخ زیتون کے پورے درخت کا ایک چھوٹا حصہ ہے جس کی اہمیت کا اندازہ پہلے ہوا، شاخ کی ایک علامتی اہمیت تھی جو پورے درخت سے بھی بڑھ گئی، شاید متضاد طور پر شاخ کی اہمیت بعد میں حقیقت پسندانہ طور پر لوگوں کو درخت کے باقی اجزاء کے اندر اس کے براہ راست فوائد کے احساس کے ذریعے ظاہر ہوئی، زیتون کے پتوں کو ابال کر پیا جاتا تاکہ ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسی دائمی بیماریوں کا علاج کیا جا سکے۔
جزیرہ نما عرب کے علاقے میں جہاں اس درخت کی افزائش بہت کم ہوتی ہے وہاں کے کچھ لوگ اس کے پھلوں یا اس کے قیمتی تیل سے زیادہ اس کے پتے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسے منہ، دانتوں اور مسوڑھوں کے انفیکشن کے علاج کے لیے بھی چبایا جاتا ہے جب کہ اسی شاخ یا تنے کو قیمتی لکڑی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ اس کا تیل اسی میں ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ اس پھل کی اہمیت بھی ہے جو پروسیسنگ کے بعد کھایا جاتا ہے، اس کا پھل دسترخوانوں پر ایک مطلوبہ ڈش میں بدل جاتا ہے جہاں تک پھلوں کو نچوڑنے کا تعلق ہے تو جب وہ سیاہ رنگ اختیار کرتے ہیں تو یہ ان کے مکمل پکنے کی علامت ہے، اس کے بعد ان سے قیمتی تیل نکالا جاتا ہے جس کی بے شمار خصوصیات اور طبی فوائد بیان کیے جاتے ہیں۔