0

الیکشن 8 فروری کو ہو رہے ہیں کنفیوژن نہ پھیلائی جائے: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق سوال پر ریمارکس دیے کہ اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کر سکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہو گا۔

سیاستدانوں کی نااہلی سے متعلق الیکشن ایکٹ چلے گا یا سپریم کورٹ کا فیصلہ؟ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ 62 ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔

درخواست گزار فیاض احمد غوری اور  سجادالحسن کے وکیل خرم رضا نے عدالتی دائرہ اختیار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ یہ کیس کس دائرہ اختیار پر سن رہی ہے؟ کیا آرٹیکل187 کے تحت اپیلیں ایک ساتھ سماعت کیلئے مقررکی گئیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے وکیل خرم رضا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی درخواست تک محدود رہیں، جس پر خرم رضا کا کہنا تھا عدالت مقدمے کی کارروائی 184/3 میں چلا رہی ہے یا 187 کے تحت؟ آرٹیکل 62 میں کورٹ آف لاء کی تعریف نہیں بتائی گئی۔

وکیل خرم رضا نے کہا کہ  آرٹیکل 62 ون ایف کی ڈکلیئریشن دینے کا اختیار الیکشن ٹربیونل کا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف میں کورٹ آف لاء درج ہے سپریم کورٹ نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا بہتر ہوگا ہمیں الیکشن ٹربیونل کے اختیارات کی طرف نہ لےکر جائیں، آرٹیکل 62 ون ایف کورٹ آف لاء کی بات کرتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا  آرٹیکل 99 ہائیکورٹ کو آرٹیکل 184/3 سپریم کورٹ کو ایک اختیار دیتا ہے، سوال یہ ہے کیا آرٹیکل 62 ون ایف سپریم کورٹ کو کوئی اختیار دیتا ہے؟ 

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا ٹربیونل کے فیصلے کےخلاف کیس سپریم کورٹ اپیل کے دائرہ اختیارمیں سنتی ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا درست، لیکن کیا 62 ون ایف ٹربیونل کو بھی تاحیات نااہلی کا اختیار دیتا ہے؟ یا تاحیات نااہلی کا یہ اختیار سیدھا سپریم کورٹ کے پاس ہے؟

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا آئینی عدالت اور سول کورٹ میں فرق کو نظر انداز نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ آئینی عدالتیں ہیں جہاں آئینی درخواستیں دائرہوتی ہیں، الیکشن کمیشن قانون کے تحت اختیارات استعمال کرتا ہے، اگرالیکشن کمیشن تاحیات نااہل کرسکتا ہے تواختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہوگا۔

چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا ایک بارکوالیفائی نہ کرنے والے کو اگلے انتخابات میں کیسے روکا جا سکتا ہے؟ آرٹیکل62 ون ایف میں نااہلی کی مدت کہاں ہے؟ آرٹیکل62 ون ایف کےتحت نااہلی کی تاحیات مدت سمیع اللہ بلوچ کیس میں دی گئی، انتخابات میں حصہ لینے کیلئے شرائط دی گئی ہیں، روپا میں اگر امیدوار کی کوالیفکیشن گریجویشن تھی اور وہ الیکشن ایکٹ میں ختم ہوگئی تو تاحیات نااہل کیسے کر دیا؟

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی پرکہا جا سکتا ہے کہ آپ امین نہیں، یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ آپ ساری زندگی کیلئے انتخابات نہیں لڑ سکتے۔

وکیل خرم رضا نے عوامی نمائندگی ایکٹ کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ اپنی ہی معروضات کی نفی کرنے والی بات کر رہے ہیں، جب 62 ون ایف کے تحت ٹربیونل نااہل نہیں کرتا تو سپریم کورٹ کیسے کر سکتی ہے؟ کیا سپریم کورٹ الیکشن معاملے میں اپیلٹ فورم کے طور پرکام نہیں کرتی؟ اضافی اختیار تاحیات نااہلی والا، یہ کہاں لکھا ہے؟ 

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ سپریم کورٹ ڈکلیئریشن دے سکتی ہے، جن کیسز میں شواہد ریکارڈ ہوئے ہوں وہاں سپریم کورٹ ڈکلیئریشن دے سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا پھر تو آپ سمیع اللہ بلوچ کیس کی حمایت نہیں کر رہے؟ خرم رضا نے کہا میں ایک حد تک ہی سمیع اللہ بلوچ کیس کی حمایت کر رہا ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ عجیب نہیں لگتا کرمنلز دوبارہ الیکشن لڑ سکتا ہے، سول نوعیت کی غلطی والا نہیں؟ قتل اغواکے مجرم کو سزامکمل کرکے الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی ہے، جس پر وکیل خرم رضا نے کہا اسلام بھی ایماندار اور دیانتدار ہونے کا درس دیتا ہے اور نیت کی بات کرتا ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل درخواست گزار کو ٹوکتے ہوئے کہا اسلام کو اس کیس میں نہ لائیں، توبہ اور راہ راست پر آنےکا تصور تو اسلام میں بھی ہے ، اسلام میں گناہگار کو معاف بھی کیا جاتا ہے، کئی منکر صراط مستقیم پر آکربعد میں خلیفہ بنے، شروع میں تو تین چار مسلمان ہی تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ایک شخص دیانتداری سےکہتا ہے وہ میٹرک ہے پھر وہ اگلے الیکشن میں بھی نااہل کیسےہے؟ آپ نے جو تفریق بتائی اس سے متفق نہیں ہوں، ایسے تو کوئی غیرملکی بھی الیکشن لڑکر منتخب ہو سکتا ہے۔

وکیل خرم رضا نے کہا عدالت نے صرف 62 ون ایف کی تشریح کرنی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا عدالت 62 ون ایف کی تشریح ہی تو کر رہی ہے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آپ کہتے ہیں ہم 62 اور 63 کو ملاکرتشریح نہیں کر سکتے۔

قانون آچکا ہے اور نااہلی 5 سال کی ہوچکی تو تاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی؟ جسٹس منصور

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کیا آرٹیکل 63 سے ہٹ کر ٹربیونل کسی کو نااہل قرار دے سکتا ہے؟ جبکہ جسٹس منصور شاہ کا کہنا تھا قانون نااہلی کی مدت کا تعین کرتا ہے، 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کو برقرار رکھا گیا، کورٹ آف لاء کو ڈکلیئریشن کا اختیار دیا گیا، جب قانون آچکا ہے اور نااہلی 5 سال کی ہوچکی تو تاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ایک بار نااہل شخص ہمیشہ نااہل رہے گا، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ آمروں کی حمایت کر رہے ہیں، آمر نے سیاستدانوں کو نااہل کرنے کا قانون بنوایا، کیا کسی آمر پر نااہلی کا قانون لاگو ہوا؟ منافق کافر سے بھی برا ہوتا ہے، منافق سب جانتے ہوئے غلط کام کر رہا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرے والد ایبڈو قانون کے ذریعے ایوب دور میں نااہل ہوئے، آپ آرٹیکل 225 کی بات کیوں نہیں کرتے؟ خرم رضا نے کہا اٹھارہویں ترمیم میں 62 ون ایف میں شامل شقوں کی توثیق ہوئی، جس پر قاضی فائز عیسیٰ بولے یہاں تو آئین میں ترمیم بھی گن پوائنٹ پر ہوتی ہے، کیا آپ آرٹیکل 62 ون ایف کو اچھا سمجھتے ہیں؟ اٹھارویں آئینی ترمیم تو صرف توثیق تھی، منتخب نمائندوں کی بنائی گئی قانون سازی کو حقارت سے نہیں دیکھا جا سکتا، کیا 5 جینٹلمین کی دانش 326 اراکین پارلیمان کی دانش مندانہ قانون سازی ختم کر سکتی ہے؟ 

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا تاحیات نااہلی ختم کرنے کیلئے آئینی ترمیم کرنا ہوگی، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا آرٹیکل62 ون ایف کےتحت نااہلی کا تعین آئین کےمطابق نہیں اپنی سوچ کےمطابق کیا گیا، الیکشن 8 فروری کو ہو رہے ہیں تو انتخابات سے متعلق کنفیوژن نہ پھیلائی جائے، مختلف عدالتوں میں مقدمات دائرکرنے سے انتخابات کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کیا پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر سکتی، جس پر وکیل خرم رضا نے کہا پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے مگر سپریم کورٹ اس کی تشریح کرتی ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا پارلیمان نے سزا دینی ہوتی تو آرٹیکل63 کی طرح 62 میں بھی شامل کر دیتی، وکیل خرم رضا نے کہا پارلیمان نے نااہلی کو برقرار رکھا ہے لیکن اس کی مدت کا تعین نہیں کیا۔

چیف جسٹس پاکستا نے کہا اگرفیصلے میں لکھا جاتا کہ نااہلی کی مدت مقرر نہیں اس لیے نااہلی 2 سال ہوگی تو کیا ہوتا؟ فیصلے کی کوئی نہ کوئی منطق ہونی چاہیے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا دو سال نااہلی کا آئین میں کہیں نہیں لکھا ہوا، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ایسے تو تاحیات نااہلی کا بھی کہیں نہیں لکھا ہوا۔

خرم رضا نے کہا عدالت187 کا اختیاراستعمال کرے تو الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے غیرآئینی ہونے پر دلائل دوں گا، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کی، وکیل درخواست گزار نے جواب دیا کہ لاہور ہائیکورٹ میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج کی گئی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا نااہلی کی مدت کی تشریح پہلے سپریم کورٹ نے کی پھرپارلیمان نے، کیا پارلیمان کی تشریح عدالت سے کم تر ہے؟ 

وکیل خرم رضا نے کہا پارلیمان کا کام قانون سازی اور عدالت کا کام تشریح کرنا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کچھ لوگوں نے کہا چلو آدھی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے، آئین کا تقدس تب ہوگا جب اسے ہم مانیں گے، یا تو ہم کہہ لیتے ہیں کہ بندوق کا تقدس مانیں گے، جب تک کوئی جھوٹا ثابت نہیں ہوتا ہم کیوں فرض کریں وہ جھوٹا ہے؟

 جہانگیرترین کیس میں ٹرائل کے بغیرتاحیات نااہل کر دیا گیا، اسکی انکوائری ہونی چاہیے: وکیل فیصل سبزواری

وکیل اصغرسبزواری نے اپنے دلائل میں کہا تاحیات نااہلی اگر ڈکٹیٹر نے شامل کی تو اس کے بعد منتخب حکومتیں بھی آئیں، سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی “جج میڈ لاء” ہے، جہانگیرترین جیسے کیسز کی انکوائری ہونی چاہیے، جہانگیرترین کیس میں ٹرائل کے بغیرتاحیات نااہل کر دیا گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں