0

امریکی اتحادی سعودی عرب، اسرائیل کے بجائے تہران کے قریب کیوں آ رہا ہے؟

اجلاس میں شرکت کے بعد ایکس پر لکھا کہ ’مشترکہ خدشات اور مشترکہ مفادات ہیں۔ ہم سب خطے کو درپیش بڑے بحرانوں کا سامنا کرنے میں تعاون اور ہم آہنگی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ ایک آپشن نہیں بلکہ ضرورت ہے، ہم سب نے اس پر اتفاق کیا ہے۔‘اسی دوران گذشتہ پیر کو ریاض میں اسلامی ممالک کی غیر معمولی اور ہنگامی کانفرنس کے بعد ایران کے نائب صدر محمد رضا عارف نے سعودی ولی عہد سے ملاقات کی ہے۔اس ملاقات کے دوران محمد رضا عارف نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو دورہ ایران کی دعوت بھی دی اور کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی ترقی کے لیے کھلنے والا نیا راستہ ایک ’ناقابل واپسی راستہ‘ ہے۔

سعودی ولی عہد سے ملاقات کے بعد ایرانی نائب صدر نے یہ بھی کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری سے نہ صرف یہ دونوں ممالک اور مشرق وسطیٰ متاثر ہوں گے بلکہ اس سے خطے کے اسلامی ممالک کے درمیان بھائی چارہ بھی بڑھے گا۔ایرانی نائب صدر نے یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات میں بہتری کے بعد اقتصادی، ثقافتی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھی تعاون بڑھے گا۔ساتھ ہی ایرانی نائب صدر سے ملاقات کے بعد سعودی ولی عہد نے یہ بھی کہا تھا کہ ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا سعودی عرب کے مفاد میں ہے۔ریاض میں عرب ممالک کی کانفرنس سے ایک روز قبل یعنی گذشتہ اتوار کو سعودی ولی عہد نے ایرانی صدر سے فون پر بات بھی کی تھی۔ تاہم ایرانی صدر نے اپنے مصروف شیڈول کی وجہ سے ریاض میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق اس فون کال کے دوران ایرانی صدر نے سعودی ولی عہد سے کہا کہ انھیں امید ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔ایرانی میڈیا کے مطابق صدر مسعود پیزیشکیان سے فون پر بات کرتے ہوئے سعودی ولی عہد نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات اس وقت تاریخی موڑ پر ہیں اور انھیں امید ہے کہ وہ بلند ترین سطح پر پہنچ جائیں گے۔اتوار کو ہی سعودی عرب کے آرمی چیف جنرل فائز بن حمیت الراولی تہران پہنچے تھے اور ایرانی آرمی چیف میجر جنرل محمد باقری سے ملاقات کی۔اس ملاقات میں دونوں ممالک نے دفاعی شعبے میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں