0

ؕڈالرز کی دوڑ میں کرکٹ برادری کا مفاد پیچھے رہ گیا

لاہور: ڈالرز کی دوڑ میں کرکٹ برادری کا مفاد پیچھے رہ گیا،’’بگ تھری‘‘ کا منصوبہ ختم ہونے کے باوجود 3 بڑوں کی اجارہ داری برقرار رکھنے رہی۔

2024 سے 2027تک آئندہ سرکل کیلیے ریونیو ماڈل کے بارے میں معلومات سامنے آنے سے ہی مالی تقسیم میں نا انصافی اور بھارتی اجارہ داری پر سخت تنقید ہورہی ہے،اس کے تحت پہلے ہی مالی طور پر مستحکم ملکوں کو زیادہ مضبوط ہونے کا موقع ملے گا ، کمزور ملکوں کی کمزوری میں مزید اضافہ ہوگا۔

مجوزہ ریونیو ماڈل سالانہ 600ملین ڈالر کے سرپلس فنڈ پر مشتمل ہے،ٹیسٹ کھیلنے والے ملکوں کو ریونیو کا 89فیصد یعنی 533ملین ڈالر سالانہ حاصل ہوں گے،صرف بھارت کو ہی مجموعی آمدنی کا 38.5فیصد 231ملین ڈالر ملیںگے،انگلینڈ کو 41.33، آسٹریلیا کو 37.53ملین ڈالر پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع ملے گا،سب سے کم شیئر افغانستان کا ہوگا جسے 16.82ملین ڈالر کی رقم دی جائے گی۔

ایسوسی ایٹس کیلیے صرف 11فیصد رقم مختص کی گئی، فنڈز کا استعمال عالمی سطح پر کرکٹ کے فروغ کیلیے کیا جانا چاہیے مگر اس مقصد کیلیے استعمال بہت کم ہوگا۔

سابق انگلش کرکٹر مائیک اتھرٹن نے تقسیم کے فارمولے پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ اس میں ہر ممبر کی کرکٹ تاریخ اور کمرشل فوائد میں کردار کو پیش نظر رکھا جاتا ہے، بھاری سرمایہ بھارت کی مارکیٹ سے آتا ہے، اسی لیے اسے کمائی کا بھی اتنا ہی بڑا موقع ملتا ہے،اس کے بعد ریٹنگ میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کا نمبرآئے گا۔

انھوں نے کہا کہ گزشتہ 16سال کے آئی سی سی ناک آئوٹ ایونٹس میں بھی یہی ممالک زیادہ آگے نظر آتے ہیں،ان کو دوسرے تمام ملکوں سے زیادہ انٹرنیشنل ٹورنامنٹس کی میزبانی بھی ملتی ہے، 3ورلڈکپس کے انگلینڈ، آسٹریلیا اور بھارت میزبان تھے،رواں سال کا میگا ایونٹ بھی اکتوبر میں بھارت میں ہی ہورہا ہے۔

مائیک اتھرٹن نے کہا کہ تینوں بڑے ملک انٹرنیشنل ایونٹس میں ہوم گرائونڈ کا فائدہ بھی اٹھاتے ہیں،تینوں گزشتہ ورلڈکپ میزبان ٹیموں نے جیتے، بھارت نے ورلڈکپ 2011 اپنے نام کیا، آسٹریلیا 2015 اور انگلینڈ 2019 میں اپنے ملک میں چیمپئن بنا،اس طرح نہ صرف ان کو کرکٹ کے فروغ کا عمل آگے بڑھانے کا موقع ملا بلکہ ٹائٹل فتوحات کی بدولت دوسروں سے زیادہ کمائی بھی ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ کمرشل اور اسپانسرشپ معاہدوں میں بھی تینوں کو سب سے بڑی مارکیٹس میسر ہیں، ان کے کنٹریکٹس کو دیکھا جائے تو دیگر ملک مالی طور پر بونے نظر آتے ہیں،ویسٹ انڈیز کی آبادی اور مارکیٹ اتنی چھوٹی ہے کہ آئی سی سی ریونیو میں کمرشل سپورٹ صرف 0.1فیصد بنی، مالی مشکلات کا شکار جزائر کو کھیل کے فروغ کیلیے کہیں زیادہ وسائل کی ضرورت ہے مگر کوئی تدبیر نہیں کی جاتی۔

انھوں نے کہا کہ انٹرنیشل گیم میں سب کیلیے آگے بڑھنے کے یکساں مواقع اور سپورٹ ہونا چاہیے ، معاملہ اس کے برعکس ہے،یہ ایک ایسا سسٹم بن چکا جس میں امیر تو امیر تر ہوگیا،مگر چھوٹے ملک اپنے کھیل کا معیار برقرار رکھنے کیلیے ضروری وسائل سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔

سابق انگلش کرکٹر نے کہا کہ آئی سی سی ریونیو کی تقسیم میں عدم مساوات کا خاتمہ کرنے کی اشد ضرورت ہے، بھارتی ٹی وی و ڈیجیٹل میڈیا اور کمرشل مارکیٹ نے کرکٹ کا نقشہ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے،آئی سی سی کی جانب سے اس بارے میں کوئی فکرمندی بھی نظر نہیں آتی،بقا کی جنگ میں مالی طور پر کمزور ملک لیگز سمیت مختلف اقدامات کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں